Tuesday, January 26, 2010

میر اُن نیم باز آنکھوں میں

عشق میں نَے خوف و خطر چاہیے
جان کو دینے کا جگر چاہیے

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اُس کی لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

نقطہء خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے

میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے

میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

0 comments: