Tuesday, January 19, 2010

محتسب کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے

دلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام
اب نہیں لیتے پر رُو زلف بکھرانے کا نام

اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبو بی نہیں
ان دونوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام

محتسب کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا ، ساقی کا، مے کا، خم کا ،پیمانے کانام

ہم سے کہتے ہیں چمن والے، غریبانِ چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

فیض اُن کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنھیں
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام

0 comments: