Thursday, August 6, 2009

کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے (فراز

کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے

جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دُکھ نہیں

پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی

خود کو گنوا کے کون تیرے جستجو کرے

اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے

تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے

تجھ کو بھُلا کے دل ہے وہ شرمندہ ء نظر

اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز

دنیا تو عرض ِ حال سے بے آبرو کرے

0 comments: